بیرون ملک ملازمت: پاکستانیوں کے لیے چیلنجز اور مواقع



پاکستانیوں کے لئے عالمی نوکریاں

تحریر: عاطف خان

نوکریاں انٹرنیٹ پر سب سے زیادہ تلاش کی جانے والی اصطلاحات میں سے ایک ہے۔ زیادہ تر پاکستانی "بیرون ملک ملازمتیں" تلاش کرتے ہیں، جبکہ بہت سے مقامی ملازمتیں ڈھونڈتے  ہیں۔ اگر آپ کسی سے پوچھیں کہ کیا وہ بیرون ملک جانا چاہتے ہیں تو بہت سے پاکستانی مثبت جواب دیں گے۔ وجہ مہنگائی اور بے روزگاری ہے۔ 2022 میں، ایک اوسط گھرانے کے لیے بنیادی ضروریات کا خرچ 20,000 روپے تھا تو صرف دو سالوں میں اب یہ بڑھ کر 50,000 روپے ہو گیا ہے۔ سست معیشت اور سیاسی عدم استحکام نے بے روزگاری میں بھی اضافہ کیا ہے۔ بین الاقوامی ادارہ برائے محنت کے مطابق، تقریباً 5.6 ملین پاکستانی بے روزگار ہیں ۔ بہتر مواقع کی تلاش میں بہت سے لوگ بیرون ملک جانا چاہتے ہیں۔ 50,000 روپے سے کم کمانے والے اوسط پاکستانی سوچتا ہے کہ  بیرون ملک جا کر ماہانہ 3,000 ڈالر کما سکتا ہے۔ اسی طرح 30,000 روپے کمانے والا مزدور سوچتا ہے کہ اگر اسے خلیج میں نوکری مل جائے تو وہ دو ہزار ریال بچا سکتا ہے۔ نہ صرف پاکستانی بیرون ملک ہجرت کے لیے بے چین ہیں بلکہ حکومت بھی زرمبادلہ کمانے کے لیے لوگ باہر بھیجنا چاہتی ہے 

تاہم حکومتی عزائم اور انفرادی خواہشات کے باوجود بیرون ملک جانے والوں کی تعداد  کم ہورہی  ہے۔ اس موضوع پر مزید بات کرنے سے پہلے، آئیے پس منظر پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

پس منظر

   گیارہ ملین سے زائد پاکستانی 1971 سے روزگار کے لیے 54 ممالک ہجرت کر چکے ہیں۔ 2015 میں، تقریباً نو لاکھ پاکستانی کام کے لیے بیرون ملک گئے، جن میں سے 90 فیصد سے زائد متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور دیگر خلیجی ریاستوں میں منتقل ہوئے۔

 امیگریشن کے مسائل پر کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم اسپیک ٹرسٹ کے سربراہ شہباز اکبر، کے مطابق  پاکستانی دو وجوہات کی بنا پر خلیجی ممالک میں ہجرت کرتے ہیں۔ دوستوں اور رشتہ داروں کے ذریعے ویزوں کے حصول میں آسانی اور کبھی نہ ختم ہونے والی تعمیرات کی وجہ لیبر کی مسلسل مانگ۔ تاہم، اکبر کہتے ہیں کہ پاکستانی تارکین وطن کو خلیجی ممالک میں کام کرتے ہوئے کم اجرت اور انسانی حقوق کے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ ایک عام پاکستانی تعمیراتی کارکن، سیکورٹی گارڈ، یا ڈرائیور خلیج میں ماہانہ 1,000 سے 2,500 درہم کے درمیان کماپاتا ہے۔ کئی ترقی یافتہ ممالک میں مزدوروں کی اجرت بہت زیادہ ہے  لیکن زیادہ تر پاکستانیوں کے لیے ان ممالک میں جانا مشکل ہے۔امریکہ کا سیاحتی ویزہ حاصل کرنے کے لیے، ایک پاکستانی کے پاس کم از کم 20 لاکھ روپے بطور نقد رقم، گزشتہ چھ ماہ کے دوران کئی بینک ٹرانزیکشنز ، جائیداد کی ملکیت، اور ماہانہ آمدنی 100,000 روپے سے زیادہ ہونی چاہیے۔ ایک ایجنٹ یورپی ملک یا امریکہ کے ورک ویزا کے لیے $30,000 تک وصول کرتا ہے 

بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی جانے والی رقوم پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کا تقریباً 8.5 فیصد ہیں۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق 2022 میں پاکستانیوں نے 31 بلین ڈالر اپنے ملک بھیجے۔ حکومت ادائیگیوں کے توازن کے بحران، مہنگائی اور بے روزگاری سے نمٹنے کے لیے مزید لوگ باہر بھیجنا چاہتی ہے تاکہ ہو مزید پیسے ملک بھیج سکیں 

یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب کے دورے کے دوران وزیراعظم شہباز شریف نے ولی عہد سے درخواست کی کہ مزید پاکستانیوں کو اپنے ملک میں روزگار دیں 

 شہباز شریف کو بتایا گیا کہ 100,000 ملازمتیں دستیاب ہیں، لیکن وہ پاکستانیوں کو نہیں دی جاسکتیں کیونکہ ان میں بنیادی مہارت کا فقدان ہے ۔ پاکستان کے اصرار پر سعودی حکومت نے اپنے زیر نگرانی پاکستانیوں کی تربیت شروع کی ہے

ملک میں فنی اور پیشہ ورانہ تربیت کے معیار پر کام کرنے والے ادارے نیووٹیک کے ڈائرکٹر جنرل ڈاکٹر خالد کے مطابق اب تک 17500 افراد کو تربیت کے بعد تکامل پروگرام کے تحت نوکری پر سعودی عرب بھیجا جاچکا ہے۔ تاہم یہ تعداد بہت کم ہے 

دنیا میں لیبر کی مانگ میں اضافہ  

پاکستانی وزارت خارجہ کے مطابق دنیا میں لیبر کی مانگ میں اضافہ ہو اہے ۔کوریا، جاپان، یورپ اور امریکہ جیسے ممالک کو ہنر مند کارکنوں کی ضرورت  ہے لیکن مہارت کی کمی اور زبان میں عبور نہ ہونے کی وجہ سے 2023 میں جنوری سے ستمبر تک صرف 639,000 پاکستانی ہی بیرون ملک جا سکے اور وہ بھی معمولی نوکریوں پر۔

پاکستانی نوجوانوں کی قابلیت

دنیا میں آئی ٹی میں بے شمار نوکریاں موجود ہیں ۔ جبکہ مصنوعی ذھانت میں اگلے دس سال تک نوکریاں بڑہتی ہی رہیں گی۔ تعلیم ہونے کے باوجود اکثر پاکستانی ان نوکریوں کو حاصل نہیں کرپاتے ۔ ملک کا روایتی تعلیمی نظام 4 لاکھ سے زیادہ گریجویٹ پیدا کرتا ہے۔ بیس سے پچیس ہزار صرف آئی ٹی اور مصنوعی ذھانت یعنی اے آئی میں تعلیم حاصل کرتے ہیں  ۔ لیکن سٹیٹ بینک کے مطابق نوے فیصد فارغ التحصیل عملی مہارت میں طاق نہیں ہوتے ۔

زیادہ تر گریجویٹس کے پاس عمومی تعلیم تو ہے  لیکن عملی تجربے اور مہارت کی کمی ہے۔ مثال کے طور پر، ایک IT یا AI گریجویٹ تھیوری تو جانتا ہے ۔ لیکن وہ سادہ کوڈ نہیں لکھ پاتا ۔ بہت سے لوگ مارکیٹنگ، سماجی اور مسئلہ حل کرنے کی مہارت، تنقیدی سوچ اور انگریزی میں کمزور ہیں۔

حرف آخر

بہت سے پاکستانی بہتر مواقع کی تلاش میں بیرون ملک جانا چاہتے ہیں، اور حکومت بھی انہیں سہولت فراہم کر رہی ہے۔ تاہم، مہارت کی کمی اور زبان میں مہارت نہ ہونے کی وجہ سے اکثر پاکستانی بیرون ملک نوکریاں حاصل کر پاتے  

انسانی وسائل کی برآمد میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ بین الاقوامی لیبر مارکیٹ میں معقول حصہ حاصل کرنے کے لیے، پاکستانیوں کو ضرورت کے مطابق پیشوں کا مطالعہ کرنا چاہیے اور ان مہارتوں میں عملی مہارت حاصل کرنا چاہیے۔ بیرون ملک ملازمتوں کے حصول کے لیے بین الاقوامی زبانیں سیکھنا بھی بہت ضروری ہے۔اگر پاکستانی مانگ کے شعبوں میں مہارت حاصل کرلیں تو وہ گھر میں بیٹھ کر بھی  آن لائین بھی کام حاصل کرسکتے ہیں